img
img
img
img
img
img
img
<

نظم و ضبط

کسی بھی تنظیم یا تحریک میں کامیابی نظم و ضبط کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے، نظم و ضبط پر عمل کرنا صرف کسی تنظیم یا تحریک کے لیے ہی مفید نہیں بلکہ زندگی ہر وہ کام جس میں نظم ہو جسے ضبط و برداشت کے ساتھ ثابت قدمی سے کیا جائے کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے۔ تنظیم یا تحریک میں اس کی اہمیت اس لیے بڑھ جاتی ہے کہ نظم و ضبط پر کار بند رہ کر ہی کوئی تنظیم یا تحریک نتیجہ خیز کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔ نظم و ضبط عربی زبان کے دو الفاظ کا مجموعہ ہے، جن کے معنی و ماخذ درج ذیل ہیں: نظم: یہ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے لغوی ایک لڑی میں پرونا یا ایک قطار میں سلسلہ وار کھڑا ہونا جبکہ معنوی اعتبار سے اس کا مفہوم یہ ہے کہ بے ترتیب چیزوں، الفاظوں یا افراد کو ایک لڑی یا قطار میں اس طرح ترتیب دیا جائے کہ وہ سب ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوجائیں اور اس کا کوئی نتیجہ نکلتا ہو۔ نظم یعنی خاص طرح کی ترتیب کسی بھی جدوجہد میں شریک لوگوں کو جوڑنے کا باعث ہوتی ہے۔ یہی نظم ہے جوکسی تنظیم با تحریک کے عام کارکن کو بھی اپنے سر براہ تک ہروقت رسائی فراہم کرتا ہے۔ اس ہی نظم کے زریعے متعین کر دا اصولوں کے مطابق کی جانے والی جد و جہد تحریکوں کو کا میابی سے ہمکنار کرتی ہے ۔ ضبط: یہ بھی عر بی زبان کا ہی لفظ ہے جوز یادہ تر تحمل اور بر داشت کے معنوں میں استعمال کیا جا تا ہے،لیکن یہ وسیع معنی رکھنے والا لفظ ہے ،جسکے معنی قابو پانا، پا بندی کر نا بھی ہے، تحریکوں میں ضبط ایساعمل ہے جو کہ تحریک میں شامل ایک دوسرے کی عادات واطوار اور ذاتی آراء کا احترام کرنے ،اجتمائی مفاد کے لئے ذاتی انا کوفنا کر نے ،اور ذاتی مفادات اورخوا ہشات کو قربان کر نے کا جزبہ پیدا کرتا ہے جس سے تحریک سے وابسطہ لوگوں میں ذہنی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اور اخوت کا رشتہ مضبوط ہوتا ہے، اور اجتمائی سوچ پروان چڑھتی ہے ، اورآ پس میں اتحادقائم ہوتا ہے ،ضبط ختم ہو جاۓ تو نظم قائم نہیں رہ سکتا نظم بر بادہوتے ہی اتحاد


(1) قیادت پراندھا اعتماد :
قیادت پراندھااعتمادکسی بھی تحر یک یاتنظیم میں نظم و ضبط کا پہلا اورانتہائی لازمی جز ہے، جس کے بغیرنظم وضبط کے دیگراجزاء بے کار ہیں، کیونکہ قیادت پراندھا اعتماد وہ ڈوری ہے جوتحریک یاتنظیم سے وابسطہ افرادکوایک لڑی میں پروکر متحد رکھتی ہے۔ تحریک کی فکری اساس بھی تحریک جڑے افرادکو متحد رکھ سکتی ہے لیکن یہ انتہائی کمزورا تحاد ہوگا کیونکہ حالات کے نشیب وفراز اورز مانے کی سختیوں سے کبھی بھی یہ اتحادٹوٹ سکتا ہے اوراگر کبھی تحریک افراد درمیان اختلاف راۓ پیداہو جاۓ تو فکری اساس یامشترکہ مقصدان افرادکو متحد رکھنے میں نا کام ثابت ہوتا ہے جس کے نتیجے میں تحریک یا تنظیم کئی حصوں یاٹکڑوں تبدیل ہو جاتی لیکن قیادت پر اندھا اعتمادر کھنے والے افراد میں جب بھی کوئی اختلاف پیدا ہوتا ہے تو وہ اسکے حل کے لیے قیادت کے ہی جا نب دیکھتے ہیں، اس طرح قیادت کی شکل میں ان کے پاس اپنے مسائل کے حل کا بہترین ذریعہ موجود ہوتا ہے، جوا ختلاف کو انتشار میں تبدیل ہونے سے روک دیتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ دنیا میں ایسی بے شمارتحریکیں ملیں گی جومشتر کہ مقاصد رکھنے کے با وجودمختلف سمتوں یا پلیٹ فارموں پرکام کر رہی ہیں لیکن ایسی کوئی ایک بھی تحریک یا تنظیم نہیں مل سکتی جس میں کام کرنے والے تحریکی افراد قیادت پراندھا اعتمادر کھنے بعد بھی مختلف سمتوں یا مختلف پلیٹ فارموں پر کام کرتے ہوں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قیادت پر اندھا اعتما داختلاف کوختم کر کے تمام معاملات خوش اسلوبی سے طے کرنے کیلئے انتہائی ضروری ہے کیونکہ قیادت کے خیالات سے متاثر ہوکر ہی تحریک سے وابسطہ افراداپنے خیالات اور برتاؤ کی اصلاح کرتے ہیں اور قیادت سے فکری غذا حاصل کر نے کی وجہ سے تمام لوگوں میں ہم آہنگی پیدا ہو جاتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریکوں میں جو کام قیادت کرتی ہے وہ کوئی مشرکہ ادارہ کیوں انجام نہیں دے سکتا ! حقیقت یہ ہے کہ عام طور پر قیادت کا کام مشتر کہ ادارہ کر سکتا ہے لیکن تحریکوں بالخصوص مہاجر قومی موومنٹ ( پاکستان ) جیسی انقلابی اور پرامن تحریکوں کا مزاج اور تندی و تیزی ایسے کسی بھی ادارے کو نا کا فی ثابت کرتی | ہے،تحریکوں میں اکثرایسے نشیب وفراز آتے ہیں کہ جب حالات و واقعات کی رفتارانتہائی تیز ہوتی ہے اوران سے نمٹنے کے لئے فوری فیصلے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جوا یک ادارے کے نظمی ڈھانچے کی بہ نسبت قیادت بہت بہتر طریقے سے کرسکتی ہے ۔


(2) ذاتی انا کوفنا کر نا:
ہرانسان کے اندر اسکی انا پوشیدہ ہوتی ہے، انسان کے اندرایسی بے قا بوخوا ہش جسکی تکمیل کے لئے وہ نفع نقصان کی پرواہ نہ کرے ، ایسی بے قا بوخوا ہش جسکی تکمیل کیلئے وہ دوسرں کے جذبات ، احساسات اور مفادات کی پرواہ نہ کرے، یہ اسکی انا ہے ، یہی انا معاشرے، معاشرے سے جڑے لوگوں تنظیموں اورتر کیوں کے لئے نا قابل تلافی نقصان کا باعث بن جاتی ہے۔تحریکوں کی بقاء اورنظم وضبط کے اطلاق کے لئے لازمی ہے کہ تحریک سے وابسطہ افرادا پنی ذاتی انا کوتحر یک کے اعلی مقاصد کے حصول کیلئے غیر مشروط طور پر قربان کر دیں ،اور کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا شکار نہ ہوں کیونکہ اس کے بغیرتحریکوں کانظم و ضبط کسی طور مکمل نہیں ہوسکتا تحریکوں میں اگر اس ا ہم پہلو پر نظر نہ رکھی جاۓ تو مفاد پرست عنا صرتحریکوں میں گھس کر اسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر نا شروع کر دیتے ہیں ،اورنظم وضبط کے اس اہم جز کی غیر موجودگی میں ان عناصر کو پہچاننا تنظیم کے مقاصداور کسی کی ذاتی خواہشات میں فرق کر ناممکن نہیں رہتا۔ کیونکہ جنہیں فرق کر نا چا ہیے وہ خودا پنی انا کوفنا کر نے کی بجاۓ اسکے غلام بنے ہوۓ ہوتے ہیں اوراس ہی غلامی کے نتیجے میں تحریک کے مقاصد اورذاتی خواہشات میں تمیزیں کر سکتے ۔ دوسری طرف اگر نظم و ضبط کا سخت معیار موجود ہواور ذاتی انا کی بجاۓ تحریک کے مفادات فوقیت دی جاۓ تو سازشی عناصرکو تحر یک میں گھسنے کا موقع نہیں مل سکتا بلکہ ایسی کوشش کرنے والے لوگ یا گروہ ایک نظر میں پہچانے جاسکتے ہیں کیونکہ نظم وضبط پر کار بندتحریکوں کاما حول ان مفاد پرستوں کے لئے قطعی سازگارنہیں ہوتا اسکے علاوہ ذاتی انا کی قربانی تحریک کے دیگرلوگوں میں ایثار کا جذبہ بھی پیدا کرتی ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ انکے لئے کوئی دوسرا ساتھی اپنی ذاتی پسند و ناپسند کو چھوڑ رہا ہے تو پھر دوسرا بھی اس ہی قسم کے طرز عمل کا مظاہرہ کرتا ہے جس سے تحریک سے وابسطہ افراد میں محبت یگانت پروان چڑھتی ہے اور باہمی اختلافات ختم ہو جاتے میں جس کا فائد اس شخص اورتحر یک دونوں ہی کو ہوتا ہے ۔

3) اجتماعت کا تصور پیدا ہونا:
اب تک ہم نے نظم ضبط کے دوا جزاء قیادت پر اندھا اعتماداور ذاتی اناختم کرنے پر بحث کی ،اگر یہ دونوں اجزاءکسی تحر یک یا تنظیم کے افراد میں موجود ہوں تو پھر تیسرا جز یا عنصر یعنی اجتماعیت کا تصور خود ہی پیدا ہو جاۓ گا۔اجتماعیت کے معنی تحریک میں شامل تمام افراد کے ذہن کسی مضبوط رشتے یا فکر سے ایک دوسرے کے ساتھ ایسے جڑ جائیں کہ جب کوئی کام کریں تو ایسا لگے کہ جیسے ایک ہی ذہن کام کر رہا ہے اور یہ اس ہی صورت ہوگا جب پہلے قیادت پراندھا اعتماد کیا جاۓ اور ذاتی انا کوختم کر دیا جاۓ کیونکہ اس کے بعد ہی تحریک سے وابسطہ افراد میں اجتماعیت کی سوچ پروان چڑھتی ہے ،اور تمام افرادمختلف جسم رکھنے کے باوجود یک جان ہو جاتے ہیں انکی سوچیں ایک جیسی ہو جاتی ہیں تنظیمی اعتبار سے ان کا ہر کام ایک جیسا ہوتا ہے اور تحریک کے ہر معاملے میں ایک جیسا نقطہ نظر اور سوچ رکھتے ہیں۔ جب قیادت پر اندھا اعتماد ہوگا اور ذاتی انا کی قربانی دی جا چکی ہو گی تو تحریک سے وابسطہ تمام افراد میں محبت اور یگانت پیدا ہو جاۓ گی ا سکے علا وہ ذاتی انا نہ ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کا احترام ، محبت او را یک دوسرے کے کام آنے کا جذ بہ پیدا ہوگا ، اور انفرادیت کا تصور جو کہ کسی بھی تحریک کے لئے زہر قاتل ہوتا ہے با لکل ختم بلکہ ایک دوسرے کے لئے ایثار کا جذ بہاوراجتماعیت بیدار ہو جاۓ گی جس کے نتیجے میں تمام لوگوں کی سوچیں ایک ہی سمت سفر کر یں گی جوتحریکوں کی کا میابی کے لئے انتہائی ضروری ہے ۔ ایا عیت اتحاد کی اہمیت کی عمد ومثال: اتحاد کی اہمیت سے کوئی بھی انکارنہیں کرسکتا، ہاتھ کی ا نگلیاں علیحدہ علیحدہ تو جسم کا ایک کمر ور حصہ ہی ہوگی لیکن یہی انگلیاں آپس میں ملکر ملکہ بن جائیں تو ایسی طاقت کہ دشمن کے دانت توڑ دیں، تکا تہا ہے تو کمزور ہے، یہ ہی تنکے جوڑ کر گھا بنا د یا جاۓ تو جھاڑو کی شکل میں عورت کا چھوٹا موٹا ہتھیار بن جا تا ہے، اتحاد میں بڑی برکت ہوتی ہے، ایک جیسی سوچ وفکر ایک جیسے مقاصدر کھنے والے لوگوں کو متفقہ قیادت، قیادت پر اعتماد، اور قیادت کا بنایا ہوانظم ایک دوسرے کو جوڑ تا ہے ، اور متحد کر تا ہے، اور یہ اتحاد اس وقت تک قائم رہتا ہے ، جب تک اس نظم کی پابندی کرنے کے لئے ضبط یعنی برداشت کا مظاہرہ کیا جا تا ہے ، جوقو میں اتحاد کا مظاہر ہ کر تی ہیں وہ تو میں بڑی سے بڑی مشکل کے سامنے بھی سرنہیں جھکا تیں ، بلکہ ہرمشکل کوا پنے اتحاد سے آسان بنا لیتی ہیں،اتحاد کی ایک مثال ڈنمارک (یورپ کا ملک کی ہے جس پر آسانی سے یقین نہیں آتا، آج سے پانچ دہائیوں قبل جب عرب اسرئیل کی جنگ ہوئی تھی تو یورپ کے تمام مما لک نے اسرئیل کا ساتھ دیا تھا، جس کے رول میں عرب ممالک نے یورپ کے ممالک کو تیل فرا ہم کر نا بند کر دیا تھا، چند ہی روز میں یورپ کے ممالک میں تیل کا بحران شدت اختیار کر گیا تھا، فیکٹریاں بند ہونا شروع ہوگئی تھیں، ٹراسپورٹ کا نظام درہم برہم ہو گیا تھا، اور یورپ کے تقریبا تمام مما لک نے عرب مما لک کے سامنے گھٹنے لیک دیۓ تھے ، اسی یورپ میں ایک ملک ڈنمارک بھی تھا، جواپنی ضرورت کا p تیل عرب ممالک سے درآمد کر تا تھا ، اور 0 خود پیدا کرتا تھا، اس ملک کے حکمرانوں نے اپنے عوام سے رائے لی کہ اس مشکل کا مقابلہ کر میں یا اس مشکل کے آگے گھٹنے لیک د یں ،عوام نے فیصلہ کر لیا کہ مقابلہ کر میں گے،انہوں نے ضرورت کا 0 تیل جودہ خود پیدا کر تے تھے اس سے فیکٹریاں چلائیں اورعوام نے اپنی اپنی کار میں گیراج میں کھڑی کر دیں ،اور سائکلیں چلانا شروع کر دیں ،پچھلی پانچ دہائیوں میں انہوں نے اپنے آپ کو سائیکل کا عادی بنا لیا، اس ملک کی آبادی 60لا کھ ہے ، اور 40 لاکھ و ہاں سائکلیں ہیں،موجودہ دور میں کسی قوم کے اتحاد کی ایسی مثال مشکل ہے ۔اتحاد کا یہ فلسفہ آسانی سے نہیں اتر تا ، اور نہ ہی درسی کتابوں میں پڑھایا جا تا ہے یہ تو سچائی ،قوم پرستی اور قیادت پراعتما دکا نتیجہ ہوتا ہے ۔آ ج ہمیں بھی ایسے ہی اتحاد کی ضرورت ہے۔ ہم اس اتحاد کی ضرورت کو محسوس تو کر تے ہیں ،تسلیم بھی کرتے ہیں،لیکن عملا اس کا مظاہرہ نہیں کر پاتے ، می سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ وقت آئیگا تو ضرور ه ونیا تا ہے تو کھتے رہ جاتے ہیں ۔ یادرکھیں وقت بی ال لیں تا جو وقت کو ضائع کردیتے ہیں وقت انہیں ضائع کرد تا ہے ہمیں آج ہی ایسا کرنا ہوگا کہ کل کیا کر تا ہے میں جائز و لینا ہو گا کہ ہم نے کیا کھو یا اور کیا پایا ، جو پار کھود یاد و کتا لیتی تھا، کیا اس نقصان کا مداواممکن ہے ،ا گرمکن ہوسکا تو وہ بھی صرف اتحاد سے ہی ممکن ہو گا ۔ کیا آج سے نر اوقت ہم پر بھی سکتا ہے؟ دشمن ہمار ے خلاف پوری طرح متحد ہے، دشمن کوا گرا ینٹ کا جواب پتھر سے نہیں دیا تو دشمن کو دوسری اینٹ مارنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔اتحاد کا مظاہرہ ہمیں کل سے نہیں آج سے کر نا ہوگا ، ہمارے پاس کل کا انتظار کر نے کا وقت نہیں ہے ، جو وقت گزر چکا اس پر لی کا اعتیار نہیں، آنے والے وقت کا بھی کوئی مجرور نہیں صرف حال ہی ایسا وقت ہے جو ہمارے ہاتھ میں ہے اس کو ضائع نہیں کر نا چا ہئے ۔ تاریکیوں کو کوسنے کے بجاۓ اپنے حصے کی ایک شمع روشن کر نا بہتر ہے، اتحادا یک ایسی شمع ہے جو کبھی نہیں بجھتی۔ تنظیم کی فکری اساس یعنی نظریئے سے آ گاہی وا تفاق اوراس پرعمل پیرا ہونا: | کسی تحریک میں ہم آہنگی اور اتحاد پیدا کر نے کے لئے جہاں قیادت پرمکمل یقین اور اعتماد ہونا چاہئے و ہیں مشتر کہ مقصد کا ہونا بھی ضروری ہے ، ہرتحریک کی یکجہتی کے لئے قیادت اور مشتر کہ مقاصد ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو کام کرتے ہیں اور تحریک کی بقاء کیلئے ان دونوں ہی کا و جو دلا زمی ہے۔ تحریک سے وابسطہ افراد میں مشتر کہ مقاصد کے حصول کا جذ بہ اس ہی وقت پیدا ہوگا جب یہ افرادتحر یک کی بنیادی اساس یعنی نظر یئے اور مقاصد سے مکمل آ گا ہی رکھتے ہوں بلکہ انتہائی درجے کی وابستگی یعنی محبت وعقیدت کے دعویدار ہونے کے ساتھ ساتھ اسکا عملی ثبوت بھی فراہم کرتے ہوں ،ا گرتحریک سے وابسطہ افراد فکری اساس سے واقف تو ہوں مگراس سے محبت اور عقیدت نہ ہوتو پھران میں کام کی وہ لگن اوروہ جذ بہ نہیں ہوگا جو ہو نا چایئے اوران میں اور تحریک سے باہر سی عام شخص میں کوئی فرق یوں نہیں رہے گا کی تحریک کے مقاصد سے بے شمار خاص و عام واقفیت رکھتے ہیں لیکن ان میں اور تحریک سے وابسطہ کارکنان میں بنیادی فرق ان مقاصد پر کار بند ر ہنے کے جذ بے میں شدت اورلگن ہوتی ہے جوکسی عام آ دی میں نہیں ہوسکتی ۔ تحر یکی مقاصد سے جس قد رمحبت کسی تحر یکی ساتھی کو ہوگی وہ تحریک کے لئے اتنا ہی زیادہ کارآمد ثابت ہوگا ، جب اسکی تحریک کے مقاصد سے وابستگی عروج پر پہنچ جاۓ گی تو دنیا جہاں کی نعمتیں اس کے لئے بے معنی بن جائیں گی اور اس شخص کی زندگی اورتحر یک کا مقصد ایک ہو جاۓ گا، سیای وہ درجہ ہے کہ جو ہر کا رکن کی جد و جہد کا مرکز نگاہ ہونا چا ہئے ،و لیا کی ہرانقلابی تحر یک ا وراس سے واباریلہ افرادکا ہمیشہ بر ی طر دکمل رہا ہے ۔ غزوہ احدنظم و ضہدا کی عمدہ مثال ہے ۔ غرز و واحد کی قیادت خودحضورﷺ فرمار ہے تھے حضوﷺ نے صحا بہ کوا نکی ذمہ دار یاں اور حکمت علمی سمجھاتے ہوئے صحابہ کی ایک ٹیم کو وہاں موجود پہاڑ کی ایک چوٹی پر تعینات کیا اور ساتھ ہی حکم دیا کہ جب تک میں نہ کہوں پہاڑ کی چوٹی چھوڑ کر نیچے نہ آئیں، کفار آئے لڑائی ہوئی لیکن حضور ﷺ کی اعلی حکمت عملی کی وجہ سے دشمن کو بھاری جانی و مالی نقصان ہوا ، اور دشمن وہاں سے بھاگ کھڑ اہوا ،یادر ہے کہ کچھ صحابہ کو حضورﷺ نے پہاڑ کی چوٹی پر تعینات کیا تھا اور حکم دیا تھا کہ جب تک حضورﷺ نہ کہیں ،صحابہ چوٹی چھوڑ کر نیچے نہ آئیں صحابہ سے حضورﷺ کا یہ حکم صرف نظر ہوا اور وہ جنگ ختم سمجھ کر حضور ﷺ کے حکم کا انتظار کئے بغیر پہاڑ کی چوٹی چھوڑ کر نیچے آ گئے ، چوٹی کوخالی دیکھ کر بھا گتا ہوادشمن پلٹ آ یا ،ا وراس چوٹی پر چڑھ گیا ، اورصحابہ پر دوبارہ سے حملہ کر دیا، جس سے صرف صحا بہ کا جانی نقصان نہیں ہوا بلکہ حضورﷺ کے دندان مبارک بھی شہید ہوۓ ،اگر پہاڑ کی چوٹی پر صحا بہ حضور دکونقصان نہیں ہوتا ، اس عظیم مثال سے کسی بھی جد و جہد میں کا میابی کے لئے نظم و ضبط کی اہمیت کا انداز ہ لگا یا جا سکتا ہے ۔نظم و ضبط: کسی بھی تنظیم یا تحریک میں کامیابی نظم و ضبط کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے، نظم و ضبط پر عمل کرنا صرف کسی تنظیم یا تحریک کے لیے ہی مفید نہیں بلکہ زندگی ہر وہ کام جس میں نظم ہو جسے ضبط و برداشت کے ساتھ ثابت قدمی سے کیا جائے کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے۔ تنظیم یا تحریک میں اس کی اہمیت اس لیے بڑھ جاتی ہے کہ نظم و ضبط پر کار بند رہ کر ہی کوئی تنظیم یا تحریک نتیجہ خیز کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔ نظم و ضبط عربی زبان کے دو الفاظ کا مجموعہ ہے، جن کے معنی و ماخذ درج ذیل ہیں: نظم: یہ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے لغوی ایک لڑی میں پرونا یا ایک قطار میں سلسلہ وار کھڑا ہونا جبکہ معنوی اعتبار سے اس کا مفہوم یہ ہے کہ بے ترتیب چیزوں، الفاظوں یا افراد کو ایک لڑی یا قطار میں اس طرح ترتیب دیا جائے کہ وہ سب ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوجائیں اور اس کا کوئی نتیجہ نکلتا ہو۔ نظم یعنی خاص طرح کی ترتیب کسی بھی جدوجہد میں شریک لوگوں کو جوڑنے کا باعث ہوتی ہے۔ یہی نظم ہے جوکسی تنظیم با تحریک کے عام کارکن کو بھی اپنے سر براہ تک ہروقت رسائی فراہم کرتا ہے۔ اس ہی نظم کے زریعے متعین کر دا اصولوں کے مطابق کی جانے والی جد و جہد تحریکوں کو کا میابی سے ہمکنار کرتی ہے ۔ ضبط: یہ بھی عر بی زبان کا ہی لفظ ہے جوز یادہ تر تحمل اور بر داشت کے معنوں میں استعمال کیا جا تا ہے،لیکن یہ وسیع معنی رکھنے والا لفظ ہے ،جسکے معنی قابو پانا، پا بندی کر نا بھی ہے، تحریکوں میں ضبط ایساعمل ہے جو کہ تحریک میں شامل ایک دوسرے کی عادات واطوار اور ذاتی آراء کا احترام کرنے ،اجتمائی مفاد کے لئے ذاتی انا کوفنا کر نے ،اور ذاتی مفادات اورخوا ہشات کو قربان کر نے کا جزبہ پیدا کرتا ہے جس سے تحریک سے وابسطہ لوگوں میں ذہنی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اور اخوت کا رشتہ مضبوط ہوتا ہے، اور اجتمائی سوچ پروان چڑھتی ہے ، اورآ پس میں اتحادقائم ہوتا ہے ،ضبط ختم ہو جاۓ تو نظم قائم نہیں رہ سکتا نظم بر بادہوتے ہی اتحاد